بسم اللہ الرحمن الرحیم
رضاخان بریلوی کا ایک ملفوظ ملاحظہ ہو : میں نے بندر کو قیام کرتے ہوئے دیکھا میں اپنے پرانے مکان میں جس میں میرے منجھلے بھائی مرحوم رہا کرتے تھے مجلس میلاد پڑھ رہا تھا ۔ایک بندر سامنے ديوار پر چپکا مودب بيٹھا سن رہا تھا جب قیام کا وقت آيا مودب کھڑا ہوگيا پھر جب بيٹھے وہ بھی بيٹھ گيا وہ بندر تھا وہابی نہ تھا ملفوظات حصہ چہارم صفحہ۵۷۳
ناظرين کرام ! اعلی حضرت کے اس ملفوظ کو آپ دوبارہ پڑھيں اور اس کے بعد فيصلہ فرمائیں کہ کیا ایسا شخص مجدد تو کیا باہوش آدمی بھی کہلانے کا حق دار ہے ؟؟؟مجلس میلاد میں قیام کے جواز پر بندروں کے عمل کو پیش کرنا کونسی عقل مندی ہے اور طرفہ تماشہ ديکھئے فرماتے ہیں کہ ” وہ بندر تھا وہابی نہ تھا“۔یہ بعينہ فباو۱ بغضب علی غضب ہے ۔اس لئے کہ اگر میں اس واقعہ کو بيان کرنے کے بعد کہوں کہ اس سے معلوم ہوا کہ محفل میلاد میں قيام بندر کرتے ہیں انسان نہیں کرتے تو کیا آپ اس پر کوئی معارضہ پیش کرسکتے ہیں؟۔
مسائل کو ثابت کرنے کا یہ عجيب طريقہ ہے ۔رضاخانی ٹولہ ایک طرف قیام کو فرض و واجب کہتے ہیں اور فرض و واجب کو ثابت کرنے کیلئے بندروں کی کہانیاں پیش کررہے ہیں ۔
خان صاحب بریلوی !!!!
یہ شريعت محمدی ﷺ ہے مداريوں کا کھيل نہیں ۔
تو اعلی حضرت کے اس ملفوظ سے معلوم ہوا کہ کہ قیام کرنے والا اور میلاد منانے والا بلاشبہ بندر تھا وہابی نہ تھا ۔ہمیں اس حقيقت کو تسلیم کرنے سے کبھی انکار نہیں ہوسکتا کہ اعلی حضرت کے سامعين بندر اور قيام کرنے والے بھی بندر ہوا کرتے تھے مگر الحمد اللہ کہ وہابی ان رسومات قبيحہ سے محفوظ ہیں ۔
نيز اس حکايت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اعلی حضرت بریلوی اپنے گھر میں بندر بھی رکھا کرتے تھے لیکن یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ انھيں نچاتے بھی تھے یا یہ کہ صرف میلاد کیلئے پال رکھے تھے۔